اداریہ:نیوزلیٹر ماہانہ 'لیبر ایجوکیشن' نومبر2020ء

25نومبر: عورتوں کے خلاف تشدد کا عالمی دِن

 25نومبر عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طورپر منایاجاتاہے۔ 1981ء میں لاطینی امریکہ کی انسانی حقوق اور فیمنسٹ کارکنان نے عورتوں کو بااختیاربنانے اور ان کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کے لیے اس دن کو منانا شروع کیا۔ بعد میں اقوام متحدہ نے عالمی سطح پرعورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن قرار دیا۔ اِس دن کامقصد عورتوں پر ہونے والے مختلف قسم کے تشدد کے خلاف بیداری پھیلانا ہے۔ شعور اجاگر کرنا ہے اوران تمام ایشوز کونمایاں کرناہے جوعورتوں پر تشدد کی وجہ بنتے ہیں۔ کسی ایک خطے یا ملک کی عورت ہی یہ تشدد برداشت نہیں کررہی بلکہ پوری دنیا کی عورتیں تشدد کی کسی نہ کسی شکل سے نبردآزما ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا کی 35فیصد عورتوں کو جسمانی یاجنسی طورپر اپنے شوہر یادیگر افراد کی طرف سے تشدد کاسامنا ہے۔کچھ نیشنل ا سٹڈیز کے مطابق 70فیصد عورتوں کو اپنے شوہر کی طرف سے تشدد سہناپڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2017ء میں پوری دنیا میں 87000 عورتوں کو جان بوجھ کر قتل کیاگیا جن میں سے نصف (50000)سے زائد کو ان کے اپنے ہی شوہر یا فیملی ممبرز نے قتل کیا۔ اسکامطلب ہے کہ پوری دنیا میں ہر روز 137عورتوں کو اپنے فیملی ممبرز میں سے کسی نے قتل کیا۔ اِسی طرح اب بھی پوری دنیا میں تقریباً 650 ملین عورتوں اورلڑکیوں کی 18 سال سے پہلے شادی کردی جاتی ہے۔ یورپی یونین کی رپورٹ کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو 15 سال کی عمر سے سائبر ہراسمنٹ کاسامنا ہوتاہے اور یہ رسک18 سے29سال کی عورتوں میں بہت زیادہ ہے۔یہ تشدد صرف جسمانی و جنسی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتاہے جسکی وجہ سے ان کیلئے نارمل زندگی گزارنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ گذشتہ دہائی کے دوران بچوں کی شادی کی عالمی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ جنوبی ایشیاء میں بڑے پیمانے پر یہ کمی واقع ہوئی ہے جو 49سے30 فیصد پر گئی لیکن اس کے باوجود یہ شرح بعض ملکوں میں بہت زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت پر تشدد میں کمی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں تقریباً 15 ملین نوعمر لڑکیوں (15سے19 سال)نے زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر جبری جنسی تعلقات کا سامنا کیا۔ عورتوں پرتشدد کے خاتمے کی گونج جتنی بلند ہورہی ہے۔ عورتوں پر تشدد اور ہراساں کرنے کے نئے طریقے بھی متعارف ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان عورتوں پر تشددکے حوالے سے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ جہاں عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیاجاتاہے۔ جنسی زیادتی کانشانہ بنایاجاتاہے۔ جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے۔ تیزاب پھینکنے، جلانے، کے واقعات کاسامناہوتاہے۔ وٹہ سٹہ،ونی سوارہ جیسی رسموں کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ وائٹ ربن پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2004ء سے2016ء کے درمیان 4734 عورتیں جنسی تشدد کاشکار ہوئیں۔ غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم کے 15000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ 1800 گھریلو تشدد کے واقعات ہوئے۔ 5500سے زائد عورتوں کو اغوا کیا گیا۔
یہ وہ واقعات ہیں جورپورٹ ہوئے جبکہ اکثریتی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے جن کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ عورتیں اپنے حقوق سے بے خبر،عدم تحفظ اور ڈر کی وجہ سے تشدد کے متعلق اپنے فیملی ممبرز تک کو نہیں بتاتیں۔ قوانین کے باوجود پولیس یا عدلیہ تک رسائی کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ جس کے پیچھے پدرسری معاشرتی سوچ کے ساتھ گھر سے باہر عورت کیلئے عدم تحفظ کاماحول ہے۔ بوسیدہ رسم و روایات ہیں۔جو عورتوں کو اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو جائز قرار دیتی ہیں اور بغیر شکایت کئے اسے قبول کر کے خوش رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔اگر باہر نکلتی ہیں تو انصاف کے اداروں میں ہی انصاف کا ترازو کمزور نظر آتا ہے۔ عورت کو باپ کے گھرسے شوہر یا بیٹے کے گھر کا سفر ایک مسافر کی طرح کرناپڑتاہے جہاں وہ زندگی کے ہر معاملے،ہر فیصلے کیلئے مرد (باپ، بھائی، شوہر) کی طابع ہے۔بے شک آج عورتیں گھر کی چار دیواری سے نکل کر معاشی اعتبار سے مستحکم ہو رہی ہیں۔ ملازمتیں کررہی ہیں لیکن اکثریتی عورتیں اس سب کیلئے مرد کی اجازت کی محتاج ہوتی ہیں۔ اس صورتحال کیلئے معاشرہ،ریاست،ادارے سب ذمہ دار ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی سطح پر معاشرتی سطح پر اِس سوچ کو بدلاجائے۔پولیس اور عدلیہ اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے صنفی تفریق کے بغیراپنی ذمہ داری کا ادراک کریں جہاں عورتیں جاتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھیں اورخاموش رہنے کی بجائے اپنے حق کیلئے لڑیں۔
 

 

اداریہ 

رپورٹس

انٹرویو

کیس سٹڈیز

مضمون


© Labour Education Foundation